3 yrs - Translate

Princess Of Hope
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے

ساحل لسبیلہ و مکران کے کوسٹل ہائی وے پر کنڈ ملیر اور اورماڑہ کے درمیانواقع ہے۔ یہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے جنوب میں واقع ہے۔ یہ بلوچستان صوبہ کا ایک قدرتی اور عجوبہ کہے جانے کا مستحق ہے۔ کنڈ ملیر سے شروع ہونے والے پہاڑی سلسلے؛ جسے بُذی لک کہا جاتا ہے کے درمیان میں ایک کٹا پھٹا پہاڑ ہے جسے صدیوں کے آندھی, طوفان اور بارشوں کے بہائو نے ایسی شکل دے دی تھی ۔
2002
میں ہولی وڈ کی اداکارہ انجلینا جولی نے دیکھ کر اسے پرنسیس آف ہوپ یعنی ”'امید کی شہزادی'ٴ اس کا نام رکھا اور اس عجوبہ نےپوری دنیا میں شہرت حاصل کرلی۔ یہ جس خطے میں واقع ہے یہاں کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ محمد بن قاسم کی فتح سے پہلے اس خطے کو ارما بیل کہا جاتا تھا۔ سکندراعظم کی فوج کا ایک حصہ 325 قبل مسیح میں ایران کو واپس جاتے ہوئے یہاں سے گزرا تھا۔

اس کے عقب میں دریائے ہنگول کے کنارے ہندوؤں کا قدیم ترین مندر ہے جونانی ہنگلاج یا بنگلاج ماتا کے نام سے موسوم ہے۔ اس مندر میں قدیم دور میں بحری و بری راستے سے یہاں اپنی عبادت کے لئے رجوع ہوتے تھے اور آج بھی یہاں مندر میں عبادت کے لئے رجوع ہوتے ہیں۔ اس مندر میں آنے سے پہلے راستے میں واقع ایک پہاڑ جو چکنی مٹی کا ٹھنڈا لاوا اگلتا ہے؛

وہ چکنی مٹی کے اس پہاڑ کو چندرگپت اور مڈ ولکانوں کا نام دیتے ہیں۔ یہ مٹی اپنے جسم پر مل کر 56 کلو میٹر آگے واقع مندر سے متصل دریائے بنگول میں نہاتے ہیں اور پھر مندر جاتے ہیں۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کی آراء کے مطابق یہاں کھدائیوں سے جو شہادتیں ملتی ہیں وہ یہاں کی تہذیب و تاریخ دوسرے خطوں کے مقابلےمیں قدیم تر بھی ہیں۔

موئنجو دڑو اور ہڑپہ یعنی وادی سندھ کی تہذیب سے قدیم یا ہمعصر تہذیبیں گزری ہیں۔‎ بلوچستان میں انسانی آبادیوں کے آثار اس سے بھی پہلے کے دریافت ہوئے ہیں۔ لوگ مختلف وادیوں میں چھوٹے چھوٹے دیہات میں رہتے تھے۔ ہر وادی پہاڑوں میں گھری ہوئی تھی؛ اس لیے ہر وادی میں جداگانہ ثقافت نمودار ہوئی۔دارا کے دور میں بخا منشی سلطنت کا بھی حصہ رہا ہے۔

سکندراعظم جب شمالی ہند کی مہم کے بعد یہاں سے واپس یونان گیا تو وہ اپنے لشکر سمیت بیلہ سے اس پرنسیس آف ہوپ (ُمید کی شہزادی) کے راستے مکران میں داخل ہوا۔ سکندر کی وفات کے بعد بلوچستان اس کے گورنر سیلوکس کے تابع رہا۔ اس کے جانشینوں کے بعد باختریوں کے تسلط میں آیا تو نوشیروان عادل (577۔ 529ء) کے عہد میں بلوچستان ساسانی سلطنت کا حصہ بناء تب
پر نسیس
آف ہوپ کا علاقہ ساسانی سلطنت میں شامل ہوا۔ 696ء میں سندھ کے راجہ چچ بن سلائچ نے مکران پر قبضہ کرلیا۔ اس زمانے میں سندھ کا رقبہ موجودہ سندھ سے وسیع تھا۔ اس میں موجودہ سندھ کے علاوہ راجپوتانہ جیسلمیر جون پور ملتانء سبی اور لسبیلہ بلوچستان بھی شامل تھا۔

3ء میں مکران پر عربوں کی حکومت قائم ہوگئی جو دسوی صدی عیسوی تک رہی۔ اس کے بعد بلوچستان میں پہلے آل غزنہ اور پھر آل غور کی حکومت رہی۔ 1219ء میں یہ علاقہ سلطان محمد خان والئ خوارزم کی سلطنت میں شامل ہوا۔ 1223ء میں تاتاریوں نے چڑھائی کی اور پھر مکران کے ساحل تک آپہنچے۔ پندرہویں صدی میں یہ ارغون حکمرانوں کے تحت رہا جن کا صفایا مغل حکمران ظہیرالدین بابر نے کیا۔ 1556ء سے1595ء تک بلوچستان مغل سلطنت کا حصہ رہا۔
1638ء میں یہاں ایران کا تسلط قائم ہوا۔
مکران کو بلوچی زبان میں ”'مکہ اے راہ یعنی مکہ جانے کا راستہ کہا جاتا تھا۔ اس سے یہ مکران ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد ایوب خان کے دور میں ارباب اختیار نے اورماڑہ کے مقامی ذمہ داروں جن میں دیدگ سیٹھ اور چیئرمین دادبخش بلوچ شامل تھے۔

قدیم گزرگاہیں دریافت کیں کہ زمانہ قدیم سے قافلوں کی گزرگاہیں کون سی تھیں: پھر انہی گزرگاہوں پر روڈ کی تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پرویزمشرف کے دور میں یہ شابراہ کوسٹل ہائی وے کے نام سےتعمیر ہوئی۔

ہمیں اپنی ثقافت،اپنے ملکے پاکستان پر فخر ہے کے ہمارے پاس باقاعدہ قدرتی حسن موجود ہے بس حکومت کی طرف سے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہم اپنی معیشت کو بہت بہتر کرسکتے ہے شکریہ ‎





https://www.pinterest.com/phrloz/phrlozara/ .

https://www.facebook.com/PhrloZara .

https://www.quora.com/profile/Phrlo-Zara
#princesofhope

https://phrlozara.blogspot.com/2020/12/princess-of-hope_86.html

https://phrlozara.blogspot.com/2020/12/princess-of-hope_86.html
imageimage
+8